باب اول
زاریہ نے ہمیشہ زندگی کو ایک سیدھی لکیر کی مانند دیکھا تھا۔ اُس کے نزدیک محنت اور جدوجہد ہی وہ دو کنجیاں تھیں جو ہر دروازہ کھول سکتی تھیں۔ قسمت، دعا، یا کسی ان دیکھی طاقت پر یقین رکھنا اُس کے اصولوں کے خلاف تھا۔ وہ ایک مشہور یونیورسٹی میں اکنامکس کی طالبہ تھی، اور اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے میں مصروف تھی۔
دوسری طرف دانیال تھا، ایک سادہ مگر گہری سوچ رکھنے والا نوجوان، جو اپنے یقین اور دعا کی طاقت پر مکمل ایمان رکھتا تھا۔ اُس کا ماننا تھا کہ زندگی میں سب کچھ محض انسان کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ قدرت کی رضا بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ وہ ایک شاعر اور مصور تھا، جس کی دنیا الفاظ اور رنگوں میں بسی ہوئی تھی۔
دونوں کی ملاقات ایک سیمینار میں ہوئی۔ زاریہ نے اپنی تقریر میں صاف الفاظ میں کہا کہ “محنت ہی سب کچھ ہے، اور قسمت محض ایک بہانہ! جو لوگ قسمت پر یقین رکھتے ہیں، وہ بس اپنی ناکامیوں کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔” دانیال نے مسکرا کر کہا، “لیکن کچھ چیزیں صرف محنت سے نہیں ملتیں، بعض اوقات دعا کا ایک قطرہ سمندر بن جاتا ہے۔” زاریہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا، “یہ صرف تم جیسے خواب دیکھنے والوں کی سوچ ہے۔”
یہ ایک چھوٹا سا مکالمہ تھا، مگر ایک نہ ختم ہونے والے فلسفیانہ مباحثے کی بنیاد بن گیا۔ زاریہ اور دانیال اکثر ایک دوسرے سے ٹکراتے، دونوں کی سوچ الگ مگر ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتی تھی۔
باب دوم
زندگی کے کچھ موڑ ایسے ہوتے ہیں جہاں ہمارے نظریات چیلنج ہو جاتے ہیں۔ زاریہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب اُس کے والد کو ایک غیر متوقع حادثہ پیش آیا اور وہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے، تب زاریہ کی تمام تر محنت، اُس کی منصوبہ بندی، اُس کے مضبوط ارادے کسی کام نہ آئے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ “اب صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔” یہ جملہ زاریہ کے کانوں میں گونجنے لگا۔
اُس رات، پہلی بار زاریہ نے خدا کے سامنے ہاتھ اٹھائے۔ وہ جو ہمیشہ دعا کو غیر ضروری سمجھتی تھی، آج اُس کا واحد سہارا دعا ہی تھی۔ اُسی لمحے، دانیال کا فون آیا۔ “میں نے تمہارے والد کے لیے دعا کی ہے، اور یقین رکھو، خدا سنتا ہے۔” زاریہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
باب سوم
چند دن بعد، زاریہ کے والد کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔ ڈاکٹروں کے لیے یہ ایک معجزہ تھا، مگر زاریہ کے لیے یہ ایک حقیقت بن چکا تھا۔ وہ جو ہمیشہ محنت کو سب کچھ مانتی تھی، اب جان چکی تھی کہ زندگی میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو صرف محنت سے نہیں ملتیں۔
زاریہ نے ایک شام دانیال سے کہا، “شاید میں غلط تھی، شاید قسمت اور دعا کی بھی ایک حقیقت ہوتی ہے۔” دانیال نے مسکرا کر کہا، “میں تمہیں بدلنا نہیں چاہتا تھا، بس چاہتا تھا کہ تمہیں ایک اور زاویہ دکھاؤں۔” زاریہ نے آسمان کی طرف دیکھا، ستارے چمک رہے تھے، جیسے اس کی سوچوں کی گواہی دے رہے ہوں۔
اختتام
زندگی کے سفر میں، بعض اوقات وہ چیزیں ہمیں سب سے زیادہ سکھاتی ہیں جنہیں ہم کبھی ماننا نہیں چاہتے تھے۔ زاریہ کے لیے یہ سفر ایک نیا آغاز تھا۔ وہی زاریہ جو دعا پر یقین نہیں رکھتی تھی، اب جان چکی تھی کہ ستاروں سے آگے بھی ایک دنیا ہے، جہاں انسان کی محنت کے ساتھ خدا کی رضا بھی شامل ہوتی ہے۔