Khooni Darwaza – Ek Shehr Ka Bhoolay Basera Raaz

Khooni Darwaza – Ek Shehr Ka Bhoolay Basera Raaz

باب 1: پراسرار گاؤں

یہ کہانی ایک قدیم گاؤں “چند پور” کی ہے، جو برسوں سے اپنے ایک خوفناک راز کی وجہ سے مشہور تھا۔ کہا جاتا تھا کہ گاؤں کے باہر ایک پرانی حویلی موجود تھی، جس کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ لوگ اسے “خونی دروازہ” کہتے تھے۔

گاؤں کے بزرگوں کا ماننا تھا کہ اگر کسی نے اس دروازے کو عبور کیا تو وہ کبھی واپس نہ آ سکا۔ رات کے وقت اکثر وہاں سے خوفناک چیخوں کی آوازیں آتی تھیں، اور کئی لوگوں نے وہاں ایک پراسرار عورت کو سفید لباس میں گھومتے دیکھا تھا۔

باب 2: نئے مہمان

احمد، جو ایک نوجوان صحافی تھا، نے اس کہانی کو ایک افسانہ سمجھا۔ وہ ایسے پراسرار واقعات پر تحقیق کرنے کا شوق رکھتا تھا، اور اس کہانی کو مزید جاننے کے لیے چند پور پہنچ گیا۔ گاؤں کے لوگ اسے بار بار منع کرتے رہے، لیکن اس کی جستجو کم نہ ہوئی۔

ایک رات وہ اپنے کیمرے اور ٹارچ کے ساتھ خونی دروازے کی طرف نکل پڑا۔ جیسے ہی اس نے دروازے کو چھوا، ایک تیز جھونکا آیا اور دروازہ خود بخود کھل گیا۔

باب 3: حویلی کے اندر

احمد نے اندر قدم رکھا تو دیکھا کہ حویلی کے اندر کی فضا بوجھل تھی۔ دیواروں پر خون کے دھبے، بوسیدہ فرنیچر، اور ایک عجیب سا ماحول تھا۔ جیسے ہی وہ اندر بڑھا، پیچھے سے دروازہ دھڑام سے بند ہوگیا۔

اچانک، اسے کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ وہ مُڑ کر دیکھنے ہی والا تھا کہ ایک سرد ہاتھ نے اس کے کندھے کو چھوا۔ احمد کے اوسان خطا ہوگئے۔

باب 4: سفید لباس والی عورت

سامنے ایک عورت کھڑی تھی، جس کا چہرہ دھندلا تھا اور آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ احمد کی طرف بڑھنے لگی۔

“یہاں کیوں آئے ہو؟” عورت کی آواز سرد اور کھوکھلی تھی۔

احمد نے ہمت کرتے ہوئے پوچھا، “تم کون ہو؟”

عورت نے جواب دیا، “میں وہ ہوں جسے ظلم نے مار ڈالا، مگر میری روح آج بھی بدلہ لینے کے لیے بھٹک رہی ہے۔”

باب 5: خونی راز

عورت کی روح نے احمد کو بتایا کہ برسوں پہلے، یہ حویلی ایک رئیس زمیندار “جعفر علی” کی تھی، جو ایک ظالم شخص تھا۔ اس نے اپنی بیوی زینب کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا اور اس کی لاش دیوار میں چنوا دی تھی۔ زینب کی روح انتقام لینے کے لیے ہر رات حویلی میں بھٹکتی تھی۔

احمد کو اچانک محسوس ہوا کہ زمین اس کے قدموں کے نیچے لرز رہی ہے۔ دیواروں سے خون رسنے لگا۔ حویلی کی کھڑکیاں خود بخود بند ہو گئیں۔ وہ چیخ کر باہر کی طرف بھاگا، لیکن دروازہ بند تھا۔

باب 6: بچاؤ یا موت

احمد کے ذہن میں ایک ہی خیال آیا، “اگر میں اس کہانی کو دنیا کے سامنے لے آیا تو شاید زینب کی روح کو سکون مل جائے۔” اس نے اپنے موبائل سے سب کچھ ریکارڈ کرنا شروع کر دیا۔

عین اسی لمحے، زینب کی روح نے ایک زور دار چیخ ماری، اور اچانک دروازہ کھل گیا۔ احمد باہر کی طرف بھاگا اور گاؤں پہنچتے ہی بے ہوش ہو گیا۔

باب 7: سچائی کا انکشاف

جب احمد نے اپنی رپورٹ شائع کی، تو حکومت نے پرانی حویلی کھودنے کا حکم دیا۔ جب دیواروں کو توڑا گیا تو وہاں واقعی زینب کی ہڈیاں برآمد ہوئیں۔ گاؤں والوں کو یقین آگیا کہ جو کچھ بھی وہ سنتے آئے تھے، وہ محض کہانیاں نہیں بلکہ حقیقت تھی۔

حویلی کو ہمیشہ کے لیے مسمار کر دیا گیا، اور “خونی دروازہ” ختم ہو گیا۔ لیکن آج بھی چند پور کے بزرگ کہتے ہیں کہ رات کے وقت وہاں جانے سے اجتناب کرو، کیونکہ کچھ روحیں کبھی آزاد نہیں ہوتیں۔۔۔

اختتام

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *