Hassam Ali – Aik Sipahi Ki Dastan

Hassam Ali – Aik Sipahi Ki Dastan

حسام علی – ایک سپاہی کی داستان

باب اول – مشن کا آغاز

رات کی تاریکی میں، خفیہ فوجی کیمپ کے اندر ہلکی ہلکی روشنی جھلملانے لگی۔ کیپٹن حسام علی، جو پاکستانی فوج کے ایک انتہائی مہارت یافتہ اسپیشل فورسز افسر تھے، اپنی ٹیم کے ساتھ آخری ہدایات سن رہا تھا۔ ان کے سامنے ایک بڑی اسکرین پر دشمن کے خفیہ اڈے کا نقشہ ظاہر تھا۔

“یہ ایک ہائی لیول مشن ہے،” کرنل ناصر نے گہری آواز میں کہا۔ “ہمارا ہدف شمالی وزیرستان کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے، جہاں دشمن کے کمانڈر، ریاض الدین خان، کی موجودگی کی خفیہ اطلاع ملی ہے۔ وہ ملک کے خلاف ایک بڑی سازش کی تیاری کر رہا ہے۔ ہمیں اس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔”

حسام علی نے ایک نظر اپنی ٹیم پر ڈالی۔ کیپٹن زبیر، لیفٹیننٹ عمر، حوالدار فہد، اور نائیک ریحان – یہ سب تجربہ کار فوجی تھے، جو اپنی جان وطن پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔

“ہم دشمن کے علاقے میں خاموشی سے داخل ہوں گے،” حسام نے حکمتِ عملی بتائی۔ “کوئی شور شرابہ نہیں، کوئی غلطی نہیں۔ ہمارا مقصد دشمن کے خفیہ اڈے کو تباہ کرنا اور ریاض الدین کو ختم کرنا ہے۔ سب کو سمجھ آگئی؟”

“یس سر!” پوری ٹیم نے بیک وقت جواب دیا۔


دشمن کے علاقے میں داخلہ

رات کے دو بجے، پاکستانی اسپیشل فورسز کا ہیلی کاپٹر خاموشی سے پہاڑی علاقے میں اترا۔ ٹیم نے نائٹ وژن چشمے پہن لیے اور آہستہ آہستہ زمین پر اترنے لگی۔ ہوا میں ٹھنڈک تھی، اور چاروں طرف مکمل خاموشی تھی، مگر حسام علی کو محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں نہ کہیں دشمن ان کی آمد سے باخبر ہو چکا ہے۔

“سب ہوشیار رہیں،” لیفٹیننٹ عمر نے سرگوشی کی۔ “یہ علاقہ محفوظ نہیں۔”

پہاڑوں کے بیچ چلتے چلتے اچانک حوالدار فہد رک گیا۔ “سر! کچھ حرکت محسوس ہو رہی ہے۔”

حسام نے ہاتھ کے اشارے سے پوری ٹیم کو روک دیا۔ سب نے اپنے ہتھیار تیار کر لیے۔ وہ دشمن کے خفیہ کیمپ سے صرف چند سو میٹر دور تھے۔ اگر ان کی موجودگی کا پتہ چل جاتا، تو یہ ایک خونریز معرکہ بن سکتا تھا۔


پہلی جھڑپ

چند لمحے مزید انتظار کے بعد، حسام نے اپنی ٹیم کو آگے بڑھنے کا اشارہ دیا۔ لیکن جیسے ہی وہ مزید کچھ قدم بڑھے، اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا! زمین ہل گئی، اور فضا میں دھواں پھیل گیا۔

“یہ گھات لگا کر حملہ ہے! پوزیشن لو!” حسام نے چِلّا کر کہا، اور پوری ٹیم فوری طور پر چٹانوں کے پیچھے چھپ گئی۔

دشمن نے گھات لگا کر حملہ کیا تھا۔ اندھیرے میں گولیاں چلنے لگیں۔ حسام نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ شاید ان کا مشن ناکام ہونے والا ہے، مگر پھر اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا – یہ وہ لوگ تھے جو ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔

“زبیر، دائیں طرف سے چکر کاٹو! عمر، تم اور فہد میرے ساتھ آؤ! ریحان، تم ہمیں کور دو!” حسام نے حکم دیا۔

ایک زوردار فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ دشمن تعداد میں زیادہ تھا، لیکن حسام اور اس کی ٹیم مہارت سے لڑ رہی تھی۔ کچھ ہی لمحوں میں، پہلا گروہ ختم ہو گیا، مگر یہ صرف آغاز تھا۔

“ہمیں فوراً دشمن کے بیس کی طرف بڑھنا ہوگا،” حسام نے فیصلہ کیا۔ “یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔”


باب دوم – دشمن کے گڑھ میں

فائرنگ کے بعد علاقے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ حسام اور اس کی ٹیم نے تیزی سے آگے بڑھنا شروع کیا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر انہیں دشمن کے بیس پر حملہ کرنا ہے تو یہ صحیح وقت تھا، کیونکہ ابھی دشمن بکھرا ہوا تھا۔

رات کی تاریکی میں چلتے ہوئے، وہ دشمن کے اڈے کے قریب پہنچ گئے۔ یہ ایک پرانی عمارت تھی جسے قلعے کی شکل میں ڈھالا گیا تھا۔ ارد گرد حفاظتی چوکیاں موجود تھیں۔

“ہم خاموشی سے اندر داخل ہوں گے،” حسام نے سرگوشی کی۔ “کوئی شور نہیں، اور اگر ضرورت پڑی تو سائلنسر کا استعمال کرو۔”

کیپٹن زبیر نے اپنی دوربین سے جائزہ لیا۔ “سر، دو دشمن چوکیوں پر موجود ہیں، اگر ہم ان کو جلدی ختم کر دیں تو راستہ صاف ہو جائے گا۔”

حسام نے اشارہ کیا، اور لیفٹیننٹ عمر نے مہارت سے دونوں دشمنوں کو سائلنسر والی گن سے ختم کر دیا۔ اب راستہ کھلا تھا۔


فیصلہ کن لمحہ

اندر داخل ہوتے ہی، ٹیم نے چوکیداروں کو قابو کر لیا اور خاموشی سے اندر بڑھنے لگی۔ انہیں نیچے تہہ خانے سے کسی کی آوازیں سنائی دیں۔

“ریاض الدین نیچے ہوگا،” حسام نے اندازہ لگایا۔ “سب تیار رہو، ہمیں ایک ہی بار میں سب کچھ ختم کرنا ہوگا۔”

وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترے اور دروازہ کھول دیا۔ اندر ایک بڑا کمرہ تھا جہاں دشمن کے کمانڈر ریاض الدین اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھا۔

“اب وقت ہے!” حسام نے اشارہ دیا، اور پوری ٹیم نے زوردار حملہ کر دیا۔ فائرنگ کا ایک اور طوفان برپا ہوا، مگر حسام اور اس کے ساتھیوں نے دشمن کو پوری طرح دبا لیا۔

ریاض الدین نے فرار ہونے کی کوشش کی، مگر حسام نے اسے نشانہ بنا کر گرا دیا۔ مشن مکمل ہو چکا تھا۔

“اللہ اکبر!” پوری ٹیم نے فتح کا نعرہ بلند کیا۔


اختتام

صبح ہوتے ہی فوجی ہیلی کاپٹر انہیں واپس لے جانے کے لیے پہنچ گیا۔ یہ ایک کامیاب مشن تھا، مگر حسام جانتا تھا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

“ہم ہر وقت تیار ہیں،” حسام نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “پاکستان کی حفاظت کے لیے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔”

اور یوں ایک اور سپاہی کی کہانی اختتام پذیر ہوئی، مگر ملک کی حفاظت کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔

(ختم شد)

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *