1. خُدی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے؟
2. ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
3. نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طُغیانِ مشتاقی
4. زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
5. کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
6. دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
7. نہ تُو زمین کے لیے ہے، نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے
8. دیا روتے روتے بجھایا گیا
مگر دردِ دل کا پتہ نہ چلا
9. پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
10. آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
11. ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
12. تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
13. خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
14. عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں، بت کدہ تصورات
15. پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ نادان پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر
16. وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
17. کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق
18. دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
19. فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
20. نہ تخت و تاج میں، نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے