Mera Attitude Meri Pehchan

Mera Attitude Meri Pehchan

عنوان: میرا رویہ میری پہچان

باب 1: ایک انوکھی شروعات

حیا علی ایک عام لڑکی نہیں تھی۔ وہ وہی کرتی جو اس کے دل کو صحیح لگتا۔ لوگوں کی پرواہ کرنا، دوسروں کے حساب سے جینا، یہ سب اس کے لیے بے معنی باتیں تھیں۔ اس کے کالج میں ہر کوئی اس کے رویے سے واقف تھا۔ نہ وہ کسی کی چاپلوسی کرتی، نہ کسی کی بکواس سنتی۔ لڑکیاں اس سے جلتی تھیں اور لڑکے اس کے مغرور انداز پر فدا تھے۔

“حیا، تم ہمیشہ اتنی rude کیوں رہتی ہو؟” اس کی دوست ایمن نے ایک دن پوچھا۔

“میں rude نہیں ہوں، بس سچ بولتی ہوں، اور لوگوں کو وہ پسند نہیں آتا،” حیا نے بے پرواہی سے جواب دیا۔

اس دن کالج میں ایک نیا لڑکا آیا تھا، رومان احمد۔ وہ خوش شکل تھا، امیر تھا اور سب سے بڑھ کر، خود کو بہت خاص سمجھتا تھا۔

“حیا علی؟ وہی جس کا attitude آسمان سے باتیں کرتا ہے؟” اس نے اپنے دوستوں سے پوچھا۔

“ہاں، لیکن اس سے بچ کر رہنا، وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتی،” کسی نے خبردار کیا۔

رومان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔ “اب دیکھتے ہیں، یہ غرور کب تک چلتا ہے۔”

باب 2: پہلی ٹکراؤ

لائبریری میں رومان اور حیا کا پہلی بار آمنے سامنے سامنا ہوا۔ رومان ایک کتاب اٹھانے ہی والا تھا کہ حیا نے وہی کتاب پکڑ لی۔

“یہ کتاب میں لینے والی تھی،” رومان نے کہا۔

حیا نے ایک نظر ڈالی اور مسکراتے ہوئے کہا، “پہلے آؤ، پہلے پاؤ۔ Rule سادہ سا ہے۔”

رومان نے نظریں تیز کیں۔ “تمہیں ہمیشہ اپنی مرضی کرنے کی عادت ہے؟”

حیا نے کندھے اُچکائے۔ “ہاں، اور مجھے بدلنے کی ضرورت نہیں۔”

رومان نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ “اچھا، پھر دیکھتے ہیں، تمہیں کون بدل سکتا ہے۔”

باب 3: ضد اور جذبات

رومان کی ضد تھی کہ وہ حیا کا attitude توڑ کر رہے گا، اور حیا کی ضد تھی کہ وہ کسی کے آگے جھکے گی نہیں۔ کالج کے ہر event میں وہ دونوں ایک دوسرے کو چیلنج کرتے۔ رومان کبھی debate میں جیتنے کی کوشش کرتا، تو کبھی games میں حیا کو نیچا دکھانے کا پلان بناتا، مگر ہر بار حیا اسے ٹکر دیتی۔

ایک دن کالج میں fun fair تھا، اور رومان نے شرط لگائی کہ جو game میں جیتے گا، دوسرا اس کے ایک حکم کو مانے گا۔

حیا نے مسکرا کر ہاتھ بڑھایا۔ “قبول ہے۔”

باب 4: جیت اور بدلاؤ

گیم شروع ہوئی، مقابلہ سخت تھا۔ آخر میں، رومان ایک پوائنٹ سے جیت گیا۔ حیا نے گہرا سانس لیا۔

“ٹھیک ہے، اب بولو، تمہیں کیا چاہیے؟”

رومان نے اسے دیکھا اور دھیرے سے کہا، “بس ایک دن کے لیے اپنی ضد چھوڑ دو۔”

حیا کا دل زور سے دھڑکا۔ کیا وہ واقعی ایسا کر سکتی تھی؟ کیا اس کا attitude ہی اس کی پہچان تھی، یا وہ خود اس سے زیادہ تھی؟

باب 5: جذبات کی جنگ

حیا نے اگلے دن فیصلہ کیا کہ وہ رومان کی شرط پوری کرے گی، لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کا رویہ بدلنے سے اس کی اپنی دنیا کیسے متاثر ہو گی۔

کلاس میں وہ اس دن کافی خاموش رہی۔ دوستوں نے نوٹس کیا کہ وہ زیادہ بول نہیں رہی تھی۔

“حیا، کیا ہوا؟” ایمن نے پوچھا۔

“کچھ نہیں، بس سوچ رہی ہوں،” حیا نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔

رومان نے یہ سب دیکھا اور مسکرا دیا۔ “لگتا ہے میری جیت کا اثر ہو رہا ہے۔”

حیا نے اسے گھورا۔ “یہ عارضی ہے، زیادہ خوش نہ ہو۔”

باب 6: بدلتے احساسات

کئی دنوں بعد، حیا نے محسوس کیا کہ رومان اسے بار بار آزمانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اس کی شخصیت کو اور بھی بہتر بنانے میں مدد دے رہا تھا۔ وہ سمجھنے لگی کہ ضد ہمیشہ کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھار نرمی اور سمجھداری سے چیزیں زیادہ بہتر ہو جاتی ہیں۔

ایک دن، جب وہ کالج کے لان میں بیٹھی تھی، رومان اس کے قریب آیا۔

“کیا تمہیں لگتا ہے کہ بدلنا برا ہوتا ہے؟” اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔

حیا نے کچھ دیر سوچا اور پھر آہستہ سے کہا، “اگر بدلاؤ ہمیں بہتر بنائے تو نہیں، برا نہیں ہوتا۔”

رومان مسکرا دیا۔ “تو پھر مان لو کہ کبھی کبھار attitude سے زیادہ احساسات اہم ہوتے ہیں۔”

حیا نے پہلی بار دل سے مسکرا کر اس کی بات کا جواب دیا۔ “ہو سکتا ہے۔”

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *