بچھڑ گئے موسم

بچھڑ گئے موسم

پیش لفظ

زندگی میں کچھ لوگ صرف ایک بار ملتے ہیں، مگر ان کا اثر ہمیشہ رہتا ہے۔ کچھ محبتیں وقت کے ساتھ مٹ جاتی ہیں، مگر ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ یہ کہانی بھی ایک ایسی محبت کی ہے جو شاید مل نہیں سکتی تھی، مگر کبھی ختم بھی نہیں ہوئی…


باب 1: پہلی ملاقات

عریبہ 23 سال کی ایک حساس مگر مضبوط لڑکی تھی۔ وہ لاہور کی ایک یونیورسٹی میں ایم فل کر رہی تھی، جہاں وہ روزانہ اپنی کتابوں میں کھوئی رہتی۔ اسے محبت جیسے جذبات پر زیادہ یقین نہیں تھا، کیونکہ اس نے ہمیشہ دیکھا تھا کہ کیسے لوگ جذبات سے کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہیں۔

مگر زندگی ہمیشہ ہماری سوچ کے مطابق نہیں چلتی…

یہ ایک خزاں کی شام تھی، جب درختوں کے زرد پتے زمین پر بکھر رہے تھے۔ سرد ہوا چل رہی تھی، اور یونیورسٹی کے کیفے میں خاموشی تھی۔ وہ اپنی کتاب میں مصروف تھی جب اچانک اس نے محسوس کیا کہ کوئی اس کے سامنے بیٹھ گیا ہے۔

“کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟” ایک دھیمی مگر گہری آواز سنائی دی۔

عریبہ نے چونک کر نظر اٹھائی، ایک لمبے قد، گندمی رنگت اور گہری آنکھوں والا لڑکا اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب اداسی تھی، جو عام لوگوں میں نہیں ہوتی۔

“جی؟” عریبہ نے حیرانی سے کہا۔

“یہاں باقی تمام میزیں بھری ہوئی ہیں، اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں یہاں بیٹھ جاؤں؟” اس نے نرم لہجے میں کہا۔

عریبہ نے سر ہلایا اور دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہوگئی، مگر اس لڑکے کی موجودگی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خاموش بیٹھا چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا، اور اس کے ہاتھوں میں ایک نوٹ بک تھی، جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔

“کیا آپ بھی لکھنے کے شوقین ہیں؟” عریبہ نے بےاختیار پوچھ لیا۔

لڑکے نے چونک کر اسے دیکھا، جیسے اس نے کچھ ایسا پوچھ لیا ہو جو بہت کم لوگ پوچھتے تھے۔

“جی، بس لکھ لیتا ہوں۔” اس نے ہلکی مسکراہٹ دی، جو کچھ لمحوں میں ہی غائب ہوگئی۔

“کیا لکھتے ہیں آپ؟”

“احساسات، وہ جو لفظوں میں بند نہیں ہو سکتے۔”

عریبہ کو پہلی بار لگا کہ شاید اس دنیا میں کوئی اور بھی ہے جو اس کی طرح اداسی کو سمجھتا ہے…


باب 2: بڑھتی قربتیں

اُس دن کے بعد، عریبہ اور حسان کی ملاقاتیں معمول بن گئیں۔ کیفے میں بیٹھ کر چائے پینا، پرانی کتابوں پر بات کرنا، اور اداسی کو لفظوں میں پرو دینا… یہ سب ان کا روز کا معمول بن چکا تھا۔

حسان ایک حساس انسان تھا، جس نے زندگی میں بہت کچھ کھویا تھا۔ وہ اپنی ماں کو بچپن میں کھو چکا تھا، اور اس کا باپ ہمیشہ مصروف رہتا تھا۔ وہ اکثر کہتا تھا:

“محبت کسی سے نہ کرنا، کیونکہ جو قریب آتا ہے، وہی سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے۔”

مگر زندگی ان دونوں کے لیے ایک الگ کہانی لکھ چکی تھی۔

عریبہ کو احساس ہوا کہ وہ حسان کے بغیر دن گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ وہ اس کی مسکراہٹ میں چھپے درد کو سمجھنے لگی تھی، اور وہ بھی عریبہ کے بغیر ادھورا محسوس کرنے لگا تھا۔

ایک دن، حسان نے عریبہ کو ایک پرانا خط دیا، جو اس نے برسوں پہلے لکھا تھا مگر کبھی کسی کو نہیں دیا۔

“یہ خط میں نے اپنی زندگی کے سب سے قریب انسان کے لیے لکھا تھا، مگر کبھی دے نہیں سکا… آج تمہیں دے رہا ہوں۔”

عریبہ نے کانپتے ہاتھوں سے خط کھولا، اور جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی، اس کی آنکھوں میں آنسو آتے گئے۔

“محبت وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں، محبت وہ ہے جو ہمیں بےاختیار کسی کی طرف کھینچتی ہے، اور پھر ایک دن بےرحمی سے چھوڑ جاتی ہے…”


باب 3: جدائی کا موسم

وقت گزرتا گیا، اور ان کی محبت گہری ہوتی گئی، مگر قسمت کو شاید یہ قبول نہیں تھا۔

ایک دن، اچانک حسان نے یونیورسٹی آنا چھوڑ دیا۔ نہ کوئی پیغام، نہ کوئی وضاحت۔ عریبہ نے اسے بہت ڈھونڈا، مگر وہ کہیں نہیں تھا۔

کئی مہینے گزر گئے، اور آخرکار عریبہ کو پتا چلا کہ حسان ایک خطرناک بیماری میں مبتلا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں، اسی لیے وہ دور ہو گیا تھا۔

جب عریبہ اسپتال پہنچی، تو حسان بہت کمزور ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھیں وہی گہری مگر اب دھندلا چکی تھیں۔

“تم نے مجھے کیوں چھوڑا، حسان؟” عریبہ کی آواز ٹوٹ رہی تھی۔

“کیونکہ میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔” حسان نے کمزور مسکراہٹ دی۔

عریبہ نے اس کا ہاتھ تھاما، مگر وہ ہاتھ اب سرد ہوتا جا رہا تھا…

اور پھر، خزاں کی وہ شام، جس دن پہلی بار ان کی ملاقات ہوئی تھی، وہی دن تھا جب حسان ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا…


اختتام

کچھ محبتیں ملنے کے لیے نہیں ہوتیں، مگر وہ ہمیشہ ہمارے اندر زندہ رہتی ہیں۔ عریبہ نے حسان کو کھو دیا، مگر اس کی محبت کو ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں محفوظ کر لیا۔

وہ آج بھی اس خزاں کی شام کو یاد کرتی ہے، جب زرد پتے زمین پر بکھر رہے تھے، اور کوئی کہہ رہا تھا:

“احساسات وہ ہوتے ہیں جو لفظوں میں بند نہیں ہو سکتے…”

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *