عنوان: بارش میں بکھری محبت
باب 1: پہلا احساس
بادلوں سے بھرا آسمان، ہلکی ہلکی بوندا باندی اور ایک ہلکی سی ٹھنڈی ہوا، جیسے قدرت بھی کسی محبت بھری کہانی کی ابتدا چاہتی ہو۔ لاہور کی گلیوں میں ایک کیفے کے باہر، مریم اپنی چائے کے کپ میں چمچ گھماتے ہوئے کھوئی کھوئی نظروں سے بارش کو تک رہی تھی۔ وہ ایک حساس اور خوابوں میں کھو جانے والی لڑکی تھی، جسے کتابیں پڑھنے اور تنہائی میں سوچنے کا بے حد شوق تھا۔
تبھی، کیفے کے دروازے سے ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔ قد لمبا، آنکھوں میں ایک خاص چمک، اور چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ۔ اس کا نام حیدر تھا۔ وہ ایک ابھرتا ہوا مصنف تھا، جس کی تحریریں پڑھ کر لوگ محبت کے مفہوم کو نئے زاویے سے دیکھنے لگتے تھے۔
مریم نے جیسے ہی حیدر کو کیفے میں داخل ہوتے دیکھا، ایک لمحے کے لیے اس کی نظریں اس پر جم گئیں۔ حیدر بھی چائے کا آرڈر دے کر ارد گرد دیکھ رہا تھا جب اس کی نظر مریم پر پڑی۔
“کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟” حیدر نے نرمی سے پوچھا۔
مریم چونک کر حقیقت کی دنیا میں واپس آئی۔ “جی؟ ہاں، بالکل!” اس نے جلدی سے کہا۔
یوں دونوں کے درمیان پہلی گفتگو کا آغاز ہوا۔ یہ گفتگو سادہ تھی مگر اس میں ایک انجانی کشش چھپی ہوئی تھی۔
باب 2: لفظوں کی قربت
چند دن بعد، وہ دوبارہ اسی کیفے میں ملے۔ اس بار گفتگو لمبی رہی۔ کتابوں، شاعری اور زندگی کے بارے میں۔ حیدر کے جملے جادو کی طرح تھے، اور مریم ان میں کھو گئی۔ وہ پہلی بار محسوس کر رہی تھی کہ کوئی اسے پوری طرح سمجھ سکتا ہے۔
“محبت تمہارے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟” حیدر نے اچانک پوچھا۔
مریم نے کچھ لمحے سوچا، پھر بولی، “محبت… شاید وہ لمحہ جب کوئی بغیر کسی وجہ کے تمہیں خوش دیکھنا چاہے، یا جب کوئی تمہاری خاموشی کو بھی پڑھ لے۔”
حیدر نے مسکرا کر کہا، “تو پھر میں تمہیں پڑھنے کی کوشش کر سکتا ہوں؟” مریم نے ہلکی سی مسکراہٹ دی، مگر دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ، دونوں کے درمیان قربت بڑھتی گئی۔ وہ دن رات ایک دوسرے سے باتیں کرتے، ایک دوسرے کی کہانیوں میں کھو جاتے۔ مریم کو حیدر کا ساتھ سکون دیتا تھا، اور حیدر کو مریم کی معصومیت نے جکڑ لیا تھا۔
باب 3: اعترافِ محبت
دن ہفتوں میں بدلے اور ہفتے مہینوں میں۔ مریم اور حیدر کی ملاقاتیں روز کا معمول بن گئیں۔ وہ ایک دوسرے کے بغیر دن کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
ایک شام، جب چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، حیدر نے مریم کو پارک میں بلا لیا۔
“آج تمہیں کچھ بتانا ہے،” حیدر نے کہا۔
مریم نے حیرانی سے دیکھا، “کیا؟”
حیدر نے گہری سانس لی اور کہا، “میں تم سے محبت کرتا ہوں، مریم۔ شاید تب سے، جب میں نے تمہیں پہلی بار بارش میں چائے کے ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔ تمہاری خاموشی، تمہارے لفظ، سب کچھ میرے دل میں اتر چکے ہیں۔ کیا تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو؟”
مریم کی آنکھوں میں خوشی اور حیرانی کے ملے جلے جذبات تھے۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد، اس نے مسکراتے ہوئے کہا، “شاید میں بھی تب سے تم سے محبت کرنے لگی تھی، جب تم نے پہلی بار میرے لفظوں کو سنجیدگی سے سنا تھا۔”
باب 4: محبت کے امتحان
محبت کبھی آسان نہیں ہوتی۔ چند ہفتوں بعد، مریم کے گھر والوں کو ان کی دوستی کے بارے میں پتہ چلا۔ مریم کے والدین روایتی خیالات کے حامل تھے اور انہیں یہ منظور نہ تھا کہ ان کی بیٹی کسی مصنف سے محبت کرے۔
“محبت کتابوں میں اچھی لگتی ہے، حقیقت میں نہیں،” مریم کے والد نے سختی سے کہا۔
مریم کی آنکھیں نم ہو گئیں، مگر اس کے دل میں حیدر کے لیے محبت کم نہ ہوئی۔ وہ اپنی محبت کو ثابت کرنا چاہتی تھی۔
حیدر بھی پیچھے نہ ہٹا۔ اس نے مریم کے والدین سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ان کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔
باب 5: محبت کی جیت
کئی مہینوں کے انتظار، دعاؤں اور محبت کے امتحان کے بعد، مریم کے والدین نے محسوس کیا کہ حیدر واقعی ایک نیک اور ذمہ دار انسان ہے۔
ایک دن، مریم کے والد نے اس سے کہا، “اگر تمہیں اس پر بھروسہ ہے، تو ہمیں بھی کر لینا چاہیے۔”
یہ الفاظ سن کر مریم کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ کچھ ہی دن بعد، حیدر اور مریم کی منگنی ہو گئی۔
اختتام: محبت کا نیا آغاز
شادی کے دن، جب مریم نے دلہن کا جوڑا پہنا، وہ سوچ رہی تھی کہ کیسے ایک بارش بھری شام نے اس کی پوری زندگی بدل دی۔
حیدر نے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا، “محبت کا رنگ کبھی مدھم نہیں ہوتا، بس ہمیں اسے سنوارنے کا ہنر آنا چاہیے۔”
مریم نے مسکرا کر کہا، “اور تم نے مجھے وہ ہنر سکھا دیا۔”
یوں ان کی محبت ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔