راحت اندوری کی 20 بہترین اور مشہور شاعری
بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے،
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے۔
آنکھوں میں پانی رکھو، ہونٹوں پہ چنگاری رکھو،
زندہ رہنا ہے تو طریقوں میں بیماری رکھو۔
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے!
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر،
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
گھر کے دروازوں پہ ناموں کے علاوہ کچھ نہیں،
وقت کی دیوار پر لکھا ہوا کیا دیکھنا؟
سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں،
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے!
ہوا کی زد پہ چراغوں کو رکھ کے دیکھو تو،
کسی کے عشق میں جلنا کمال ہوتا ہے۔
محبتوں کا سفر عمر بھر کا ہوتا ہے،
یہ ایک لمحے کا غم ہے، گزر ہی جائے گا۔
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلو،
جہاں تلک یہ اندھیرا ہے، روشنی رکھو۔
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے،
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے۔
ہر ایک شخص سے کہتا ہوں میں یہ ہنستے ہوئے،
کہ میرے دل میں تمہارا خیال رہتا ہے۔
زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے،
مر گئے ہم تو کوئی بات نہیں، جینا ہے!
جلا کے مشعلیں نکلو، ہواؤں سے نہ ڈرو،
جہاں تلک یہ اندھیرا ہے، روشنی رکھو۔
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟
دل ہے تو کوئی درد چھپایا ہوا ہوگا۔
ہم سمندر کی طرف جائیں تو حیرت کیسی،
آپ بہتے ہوئے دریا کو بھی روکو گے کیا؟
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں،
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے!
چراغ اپنے جلاتے ہوئے ہوئے کیا کیا،
ہمارے گھر کو جلانے کا فن دکھاتے ہوئے۔
میں جانتا ہوں دشمن بھی کم نہیں لیکن،
ہماری طرح ہتھیلی پہ جاں تھوڑی ہے۔
ہم اپنی آنکھوں سے بھی روٹھ سکتے ہیں،
کسی کے کہنے پہ اپنا یقین تھوڑی ہے۔
!