سردیوں کی ایک یخ رات تھی۔ راشد چپ چاپ اپنی پرانی کتابیں ترتیب دے رہا تھا۔ ہر کتاب میں یادوں کی ایک خوشبو بستی تھی، ایک ایسی خوشبو جو اسے ماضی کے بچھڑے لمحوں میں لے جاتی تھی۔ اچانک، ایک پرانی ڈائری کے صفحات پلٹتے ہوئے، اسے ایک خشک گلاب کی پتی ملی۔ وہ لمحے کے لئے رک گیا، جیسے وقت تھم گیا ہو۔
یہ پتی اس نے زینب کو دی تھی، اپنے کالج کے دنوں میں۔ اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ زینب اس کی پہلی اور آخری محبت تھی، مگر ان دونوں کے درمیان وقت اور حالات کی دیواریں آ کھڑی ہوئیں تھیں۔
کچھ دیر خاموشی سے اُس پتی کو دیکھتے ہوئے، اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے یاد آیا کہ زینب اکثر کہتی تھی کہ خوشبو کبھی نہیں مرتی، وہ ہمیشہ یادوں میں بستی ہے۔ یہ پتی بھی شاید آخری خوشبو کے طور پر بچی رہ گئی تھی، ایک خاموش پیغام کے طور پر۔
رات گزر گئی اور راشد نے پتی کو دوبارہ ڈائری کے صفحات میں رکھ دیا۔ جیسے خوشبو کی یہ آخری یاد اُس کے دل کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لئے بس گئی ہو۔