شہرِ خاموشی

شہرِ خاموشی

شاہ زیب نے آنکھیں بند کیں اور گہری سانس لی۔ شہر کی آخری شام کا منظر اس کے ذہن میں بسا ہوا تھا، وہی پیلا پن جو ڈھلتی ہوئی دھوپ میں عمارتوں پہ چھا جاتا ہے۔ وہ یہاں سے دور اپنے شہر لاہور کو یاد کرتا تھا، جیسے وہ اس کے لئے ایک پرانا خواب بن چکا ہو۔ مگر اس بار یہ خواب نہیں تھا؛ وہ اپنے ماضی سے ملنے آیا تھا۔

اس کے قدم رستے پہ آہستہ آہستہ چل رہے تھے، جیسے ہر قدم اس کے لئے یقین کا سفر ہو۔ وہ جانتا تھا کہ کبھی یہ گلیاں اس کی پہچان ہوتی تھیں، مگر اب یہ محض یادوں کا مجموعہ رہ گئی تھیں۔ اس کی زندگی میں انایا کا آنا اس لمحے کی طرح تھا جب شہر میں بارش ہوتی ہے، اور ہر چیز نئی لگنے لگتی ہے۔

انایا کے ساتھ گزارے ہوئے وہ چند مہینے… وہ یادوں کا سلسلہ آج بھی اس کے دل کے گوشے میں شور مچاتا تھا۔ وہ ایک راز جیسی تھی، اس کے لمحوں میں چھپی مسکراہٹ، اور وہ لمحہ جو وہ شاہ زیب کے ساتھ بِتاتی تھی، جیسے کوئی ٹھنڈا سا سایہ دھوپ میں چھپ جاتا ہے۔ ان دنوں کے بعد، وہ شاید دوبارہ کبھی نہ مل سکے تھے، مگر آج یہ سوچ کر، اس کا دل ایک عجیب سی خلش سے بھر گیا تھا۔

ایک پتلی سی کتاب اس کے ہاتھ میں تھی، جسے وہ انایا کے لئے لکھنا چاہتا تھا۔ یہ کتاب اس کے لئے صرف لکھنے کا ایک ذریعہ نہیں تھی، بلکہ وہ ہر وہ بات تھی جو اس کے دل کے کسی گوشے میں گھٹ رہی تھی۔ ہر صفحہ اس کے ان سنے جذبات کا گواہ تھا، جو وہ اس وقت انایا سے کہہ نہیں سکا تھا۔

جیسے ہی وہ گلی کے موڑ پر پہنچا، اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی دکان کے باہر کچھ لوگ جمع ہیں۔ “وہ پرانی کتابیں جو آپ ڈھونڈ رہے تھے، وہ شاید اب مل جائیں،” دکان والے نے شاہ زیب سے کہا۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *