1-10: علامہ اقبال
- خودی کو کر بلند اتنا، کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے؟ - نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفان ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں - محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستارے جن کے دامن میں ہیں - اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی - کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تُو نے؟
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا - ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں - ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں - نہ تخت و تاج میں، نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے - زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے - تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ، کیا چاہتا ہوں
11-20: فیض احمد فیض
- ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے - گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے - اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا - متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے - اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا - ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد - درد اتنا تھا کہ افسانہ بنا رکھا ہے
کس قدر ضبط کیا ہوگا کہ نا رکھا ہے - دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں ان کے روبرو بات اور ہو گئی - بچھڑنے والے میں کیسے تجھے بھلا دوں گا؟
کہ تیری یاد کا اب تک مجھے پتا دوں گا - اور کچھ دیر ٹھہر، اور ذرا بات کریں
تو بھی اداس لگے، میں بھی اداس ہوں
21-30: احمد فراز
- سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں - رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ - شام کو کسی نے چھیڑ دی تنہائی کی دھن
رات بھر مگر دل کو بے کلی نہ گئی - سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں - کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو - مجھے یہ ضد تھی کہ تو بولے اور تجھے یہ ضد تھی کہ چپ رہوں
مری انا بھی کوئی شے تھی، ترے غرور کا بھی جواب تھا - اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں - نہ میں نے فون کیا نہ کسی نے یاد کیا
عجب سا وقت پڑا ہے، ترے فراق کے بعد - دل کو خوشبو کی تمنا ہے مگر
زخم ایسا ہے کہ مہکا ہی نہیں - ابھی کچھ دن لگیں گے رات ہونے میں
چراغوں کو بجھا دو، لوٹنے میں دیر لگتی ہے
31-40: جون ایلیا
- بہت نزدیک آ چکا تھا میں
اسے کہنا تھا، پر کہا نہ گیا - محبت ایک خواب تھی، خوابوں میں کیا حقیقت تھی
میں جسے حقیقت سمجھتا رہا، وہ محبت تھی - دل، جو دیوانہ ہو چکا ہے
کوئی سمجھائے، کوئی بہلائے - میری حقیقتوں سے نہ کر پردہ جون
میں خود کو پہچاننے سے قاصر ہوں - کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو - میں جو بولا تو بولے گا کہ بولتا ہے
اب تو چپ بھی رہوں تو شکایتیں ہوں گی - بہت کچھ ہے کہنے کو لیکن
کہنے کو جب بھی آؤں، چپ رہوں - یہ جو میں ہنستا مسکراتا رہتا ہوں
کوئی زخم ہے جو چھپایا ہوا ہے - شاید جون کہیں کھو گیا
جو خواب تھا وہ تو ہو گیا - میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا، اور ملال بھی نہیں
41-50: دیگر مشہور شاعری
- میں نے کہا موت ہے؟ کہا ہاں
میں نے کہا درد ہے؟ کہا ہاں - کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے؟
یہ حقیقت تو نگاہوں سے بیاں ہوتی ہے - میں نے پلکوں پہ آنسو رکھ کر پوچھا
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟ - ہر ایک سے مل کر، ہر ایک کو دیکھا
میرے دل کو تُو ہی اچھا لگا - وہ جو تم میں ہنر دیکھا تھا
وہ کہیں اور بھی تو ہو سکتا تھا - دل کی دنیا اجاڑ کر ساری
ہم نے کس کا بھلا کیا آخر؟ - تو محبت ہے یا کوئی عادت؟
کیوں نہیں بھولتا ہے تو آخر؟ - لبوں پہ کچھ بات رکھتے ہو
مگر کہتے نہیں - چلو آج مل کے وعدہ کریں
بچھڑنے سے پہلے نہ بچھڑیں گے ہم - ہم نے تجھ کو کہاں دیکھا ہے؟
خواب میں، یاد میں یا حقیقت میں؟