مقدمہ
آج کا دور ڈیجیٹل ہے، مگر کیا یہ اصل زندگی کا بدل ہو سکتا ہے؟ یہ کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جو سوشل میڈیا کی چمک دمک میں کھو گیا، لیکن جب اصل اور ورچوئل دنیا کا فرق سمجھ آیا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔
باب ۱: نیا سفر
احسن ایک عام لڑکا تھا، جو ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی زندگی بہت سادہ تھی، لیکن جب اسے اپنے والدین کی طرف سے پہلا اسمارٹ فون ملا، تبھی سے سب کچھ بدل گیا۔ پہلے وہ صرف دوستوں کے ساتھ چیٹنگ کرتا، لیکن دھیرے دھیرے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ٹویٹر کا ایک ایسا نشہ چڑھ گیا جو اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔
وہ ہر وقت موبائل اسکرین سے چپکا رہتا۔ ہر نئے ٹرینڈ کو فالو کرتا، ہر نئے فلٹر کو آزماتا۔ اس کا بس ایک ہی مقصد رہ گیا: لائکس اور فالوورز بڑھانا۔ یہ سب کرتے کرتے اس کی اصل زندگی ایک عجیب اندھیرے میں ڈوبتی چلی گئی۔
باب ۲: نفسیاتی دباؤ کا آغاز
احسن کو پہلے لگتا تھا کہ سوشل میڈیا صرف ایک تفریح ہے، لیکن دھیرے دھیرے اسے احساس ہونے لگا کہ یہ ایک مقابلہ ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے زیادہ اچھی تصاویر، زیادہ لائکس اور زیادہ مشہور ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔
اسے ہر وقت لگتا کہ لوگ اسے جج کر رہے ہیں، اس کی ہر پوسٹ پر منفی تبصرے یا کم لائکس اس کے لیے ایک عجیب سی بےچینی کا سبب بنتے۔ موازنہ کا زہر اس کے ذہن میں بڑھ رہا تھا۔
اسے نیند نہیں آتی تھی، اس کا فوکس پڑھائی پر نہیں رہتا تھا، اور سب سے بری بات یہ تھی کہ اس کا اعتماد بار بار گر رہا تھا۔
باب ۳: دوست اور دشمن
احسن کا سب سے اچھا دوست سمیر تھا۔ اسے ہر وقت یہ لگتا تھا کہ احسن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، مگر جب بھی وہ پوچھتا، احسن مسکرا کر کہتا: “میں بالکل ٹھیک ہوں!”
مگر اصل میں وہ اندر سے اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ سوشل میڈیا نے اسے اصل دوستوں سے دور کر دیا تھا۔ وہ بس ورچوئل دوستوں اور تبصروں کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
ایک دن اسے ایک میسج آیا: “تیری پوسٹ بہت بورنگ ہوتی ہیں، تو کچھ بھی نہیں ہے۔” یہ پڑھ کر احسن کا دل ٹوٹ گیا۔ اسے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ وہ اصل زندگی میں تنہا ہو چکا ہے۔
باب ۴: ایک نیا موڑ
ایک دن احسن نے ایک پوسٹ لگائی جو وائرل ہو گئی۔ اس کے فالوورز بڑھنے لگے، لیکن یہ وقتی خوشی تھی۔ اس کی اصل زندگی تب تک کھوکھلی ہو چکی تھی۔
ایک رات جب وہ سوشل میڈیا اسکرول کر رہا تھا، اسے ایک خبر ملی کہ ایک لڑکی نے صرف منفی تبصروں کی وجہ سے اپنی جان لے لی۔ یہ سن کر احسن ہل گیا۔ اسے سمجھ آیا کہ اس کا بھی حال بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہ بھی صرف لوگوں کی رائے کا غلام بن گیا تھا۔
باب ۵: حقیقت کی پہچان
اس رات اسے نیند نہیں آئی۔ صبح اٹھ کر اس نے اپنے موبائل سے سوشل میڈیا ایپس ڈیلیٹ کر دیں۔ پہلی دفعہ اس نے اصل زندگی کو دیکھا—ماں کا پیار، والد کا بھروسہ، اور دوستوں کی سچائی۔
اسے سمجھ آیا کہ اصل خوشی اسکرینز کے پیچھے نہیں، بلکہ اصل رشتے نبھانے میں ہے۔
آخری الفاظ
احسن نے سیکھا کہ سوشل میڈیا صرف ایک ذریعہ ہے، اصل زندگی نہیں۔ اسے سمجھ آیا کہ اپنی اصل زندگی کو عزت دو، نہ کہ ورچوئل دنیا کے نمبروں کو۔
کیا آپ بھی سوشل میڈیا کے اس نشے کا شکار ہیں؟ اگر ہاں، تو سوچئے… کہیں آپ بھی اصل زندگی سے دور تو نہیں ہو رہے؟